Skip to main content

کاش 22 اکتوبر 1947 کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا!



کھکھہ راجپوت ٹائمز:

 !کاش 22 اکتوبر 1947 کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا:

تحریر : راجہ شہریار طاہر کھکھہ


آج سے 73 برس قبل ، آج کا دن یعنی 22 اکتوبر 

جموں کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ہماری تاریخ  میں 22 اکتوبر 1947  سے آزادی تک   ہر دن  یوم سیاہ ہی ہے اور اس سب کا زمہ دار 22 اکتوبر 1947 کا ہی سیاہ ترین دن ہے۔

22اکتوبر 1947 کو پاکستان سپانسر قبائلی حملہ ہی ہماری ریاست کی تقسیم، غلامی ،ریاست میں ظلم ،جبر اور ان گنت معصوموں کے قتل کا زمہ دار ہے ۔

کاش !22 اکتوبر  کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا، تو آج ہم تقسیم نہ ہوتے، ہماری ریاست غلام نہ ہوتی، ہمارے ہزاروں  لوگ قتل نہ ہوتے، ہمارے ہم وطن جیلوں میں نہ مرتے،ہمارے ہم وطن جیلوں میں نہ بند  ہوتے ، ہماری سینکروں مائیں بہنیں بیوہ نہ ہوتی ، ہمارے وطن کے ہزاروں  بچے یتیم نہ ہوتے ، آج ہمارے وطن میں والدین اپنے بچوں کو جوان موتیں  نہ دیکھتے ہوتے، آج مائیں اپنے بچوں ،بیویاں اپنے شوہروں اور بچے اپنے والدین سے مرحوم نہ ہوئے ہوتے، آج زندگی سسکیوں میں نہ گزرتی ہوتی، آج  ہمارے لوگ بکے ہوئے نہ ہوتے، نہ مردہ ضمیر ہوتے نہ وطن فروش ہوتے،  آج اپنے  وطن میں اپنی خواہشوں اور خوابوں پر پابندی نہ ہوتی ، کسی کو کھونے کا ڈر نہ ہوتا ،ناانصافیاں ،نفرتیں، اجڑنے کی بے شمار داستانیں نہ ہوتی، کاش 22 اکتوبر 1947 کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا، یہ غم، یہ دکھ بھری  داستانیں نہ ہوتیں، یہ بچھڑنے کی یادیں نہ ہوتیں،یہ مارا ماری کی باتیں نہ ہوتیں ، یہ خونی لکیریں نہ ہوتیں، ہزاروں مشکلات نہ ہوتیں ،سوچیں قید نہ ہوتیں، ایسی جدائیاں نہ ہوتیں ،کاش 22 اکتوبر کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا! غیروں کے بجائے یہاں اپنی بات ہوتی، اپنے دیش میں صرف اپنا پرچم لہراتا، غداری کے فتوے نہ ملتے،ہمارے کھانے والے ہمیں ہی  نمک حرام نہ کہتے، میرے دیش کے لوگ آج رسوا نہ ہوتے اگر 22 اکتوبر کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا!

22 اکتوبر کو ہمیں کس سے آزادی دلانے آئے تھے اور کیسی آزادی دلائی گئی ؟؟؟؟ کیا ریاست میں بسنے والے لوگوں کے قتل کروانا آزادی کہلاتی ہے؟؟؟

 اے میرے وطن کے لوگو! یہ کیسی آزادی تھی جس نے ہمارے ہم وطنوں کو ہم سے جدا کردیا ،یہ کیسی آزادی تھی کہ ہمارے وطن کو چھ ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا!

کاش 22 اکتوبر کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا ، آج ہمارے جموں کشمیر میں  شعور ہوتا، امن ہوتا، انسانیت ہوتی،محبت ہوتی، بھائی چارہ ہوتا،اتحاد ہوتا،  ہماری خواہشوں کی تکمیل میں بیرونی طاقتیں نہ  ہوتی، ہمارے خوابوں کی تعبیر ہوتی، آزادی ہوتی!

آج ہماری ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا چھ ٹکڑوں میں،تین ممالک کے قبضے میں ہے جسکا زمہ دار صرف اور صرف  آج سے تہتر برس پہلے ہونے والا قبائلی حملہ ہی  ہے!

22 اکتوبر نہ ہوتا تو 27 اکتوبر بھی ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہوتا۔ آج جموں کشمیر کے چپے چپے میں غیر ملکی فوج نہ ہوتی ، ہماری شناخت،ثقافت اور زبانیں  خطرے میں نہ ہوتیں! 

آج ہم غلام نہیں آزاد قوم ہوتے، آج ہم بکھرے ہوئے نہیں ایک قوم ہوتے، آج ہماری زمینوں پر ہمارے وسائل پر ،ہمارے دریاؤں پر ، ہمارے جموں کشمیر پر ہمارا حق و اختیار ہوتا، ہم  نہ شہہ رگ اور نہ اٹوٹ انگ کہلاتے،ہمارے وطن کے لوگ غیر ملکی کہلانے کے بجائے اپنے وطن جموں کشمیر کے باشندے ہونے پر فخر کرتے  کاش 22 اکتوبر 1947 کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا.


Comments

Popular posts from this blog

کھاوڑہ کو "کھاوڑہ" کیوں کہا جاتا ہے اور کھکھواڑی زبان کہاں بولی جاتی ہے

 کھکھہ راجپوت ٹائمز: کھاوڑہ لفظ کھکھہ واڑہ وچآ نکلیا جس تے معنی کھکھہ ذی جاگیرا ذے،  کھکھواڑہ سیاں لفظ صوتی تغیر اور وقتا نال کھاوڑہ ہوئیا۔ کھکھواڑہ وچ کھکھیاں ذی ایک بہت بڑی تعداد آباد ای اور جہڑی زبان کھکھے بولدے او کھکھواڑی کہلانزی جس تا لہجہ ہندکو  ذے پہاڑی کولا مختلف آہ۔ اکثر لوک اسا"تیا میا" الی زبان سیاں جانڑدے اور اسا "تیا میا" الی زبان اختے۔  ائیکلاں لوک اپنڑے بچیاں اپنڑی مادی زبان نہے بولنڑ دینزے اور کئی لوک ایسے وی تھے جہڑے اپنڑی مادی زبان  بولے وچ توہین اور شرمندگی محسوس کردے ۔  آس لوک اپنڑے بچیاں نال کھکھواڑی ذی جائی اردو بولدیاں اور انھاں  اپنڑی زبان نہے بولنڑ دینزے اں۔ اے غل بہت ہی غلط ای، کیاں کہ اس تی ایک وجہ اے ای کہ اس نال آس اپنڑی زبانا دن بدن ختم کررہیاں تہ دویا اے آہ کہ جہڑی قوم اپنڑی مادری زبان بولے وچ جھجک شرمندگی محسوس کرا او دنیا ذی غلام ترین اور بیوقوف ترین قوم کہلانزی ۔ اردو وی آساں ذی اپنڑی زبان ای ،اساں ذی شناخت اور پہچانڑ ای لیکنڑ مادی زبان اردو کولا آساں ذی پہلی پہچانڑ ای ،اردو نصابا ذا حصہ ای اور آس سیکھی وی کہندیاں لیک...

13 جولائی 1931: یومِ شہداء کشمیر

کھکھہ راجپوت ٹائمز 13 جولائی ،1931 ہر سال 13 جولائی یومِ شہداء کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 13 جولائی 1931 کو 22کشمیری مسلمان ریاستی پالیس کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ 13 جولائی کا واقع حکومت ریاست جموں کشمیر اور ہری سنگھ کی انتظامیہ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے رونما ہوا جس کو انگریزوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے الگ رنگ دے کر تاریخ کے ساتھ  بہت بڑی زیادتی کی ہے۔  یہ واقع جموں میں رونما ہونے والے واقعات (جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا) کی وجہ سے ہی  رونما ہوا تھا۔ جموں میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور نمازپڑھنے سے روکے جانے والے واقعے نے ریاست کے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پیدا کردیا تھا جس میں عبدالقدیر نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا تھا۔عبدالقدیر نے 25 جون 1931 سرینگر کی ایک مسجد میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف  تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اکسایا کہ کشمیر میں ہندوؤں کو قتل کرنے کے  علاوہ مندر بھی نذر آتش کر دیں۔ اسکے علاوہ عبدالقدیر اکثر ایسی تقریریں کر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا رہتا تھا۔  عبدالقدیر کی گرفتاری کے نتیجے میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر...

ہر مصرعہ شعر نہیں کہلاتا، شاعری اور نثر میں بنیادی فرق؟؟؟

 دا کھکھہ راجپوت ٹائمز تحریر: راجہ شہریار طاہر ہر مصرعہ شعر نہیں کہلاتا،یعنی ہر وہ جملہ جس میں قافیہ و ردیف ہوں وہ شعر نہیں کہلاتا۔ ہمارے ہاں اکثریتی عوام تو شاعری کو پسند کرتی ہے مگر اکثریت کو علم ہی نہیں ہوتا کہ شاعری کن اصولوں کے تحت کی جاتی ہے۔   کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ  قافیہ و ردیف سے ہی شاعری ہے اور جن مصرعوں میں قافیے و ردیف ہوں وہ   وہ شعر کہلاتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ الفاظ کی ایک لڑی پرو کر ،الفاظ کو ترتیب دینا، آگے پیچھ کرنا اور ان کے ساتھ  قافیہ ردیف لگا دینے سے نظم یا غزل بن جاتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ محدود الفاظ میں اپنے احساس و خیالات کو قلم بند کرنا شاعری کہلاتا ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ  شاعر محدود الفاظ میں اپنے احساس ،جذبات و خیالات قلم بند کرتا ہے مگر وہ محدود الفاظ میں بھی محدود ہو کر شاعری کے اصولوں کے مطابق باوزن مصرعے کہتا ہے جو  نثر نہیں بلکہ شعر کہلاتے ہیں۔ وزن،بحر ،تلفظ،قافیہ اور ردیف مل کر شعر بناتے ہیں اور ان میں وزن ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا ہے اور وزن ہی شاعری اور نثر میں فرق کرتا ہے۔وزن کا تعلق آواز سے ہے ...