کھکھہ راجپوت ٹائمز
13 جولائی ،1931
ہر سال 13 جولائی یومِ شہداء کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 13 جولائی 1931 کو 22کشمیری مسلمان ریاستی پالیس کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔
13
جولائی کا واقع حکومت ریاست جموں کشمیر اور
ہری سنگھ کی انتظامیہ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے رونما ہوا جس کو انگریزوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے الگ رنگ دے کر تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔
یہ واقع جموں میں رونما ہونے والے واقعات (جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا) کی وجہ سے ہی رونما ہوا تھا۔ جموں میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور نمازپڑھنے سے روکے جانے والے واقعے نے ریاست کے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پیدا کردیا تھا جس میں عبدالقدیر نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا تھا۔عبدالقدیر نے 25 جون 1931 سرینگر کی ایک مسجد میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اکسایا کہ کشمیر میں ہندوؤں کو قتل کرنے کے علاوہ مندر بھی نذر آتش کر دیں۔ اسکے علاوہ عبدالقدیر اکثر ایسی تقریریں کر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا رہتا تھا۔ عبدالقدیر کی گرفتاری کے نتیجے میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر حملے شروع کردئیے تھے جسکی وجہ سے سری نگر مذہبی تعصب کا شکار ہو کر جنگ کا میدان بن گیا تھا۔
جب 13 جولائی 1931 کو سینٹرل جیل سرینگر میں عبدالقدیر کے مقدےکی سماعت شروع کی گئی تب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جیل کے باہر جمع ہو کر عبدالقدیر کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھی۔ کچھ مظاہرین جیل کے اندر بھی داخل ہوئے تھے جن کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا تو مظاہرین مشتعل ہو گئے اور عبدالقدیر کو رہا کروانے کے لیے جیل پر حملہ کردیا اور حملے کے باعث ایک پولیس اہلکارا بھی مارا گیا اور کئی زخمی ہوئے تھے ۔مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلانا شروع کردی تھیں جسکے نتیجے میں 22مظاہرین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور کئی زخمی بھی ہوئے۔
اس دن کو کشمیری بطورِ شہداء کشمیر مناتے ہیں اور ہر سال 13 جولائی کو 22مظاہرین کی شہادت کو یاد کرتے ہیں۔
(عبدالقدیر ایک غیر ریاستی شخص تھا جسکے متعلق علحدہ سے تفصیل کے ساتھ بات کی جائے گی
)
13 جولائی ،1931
ہر سال 13 جولائی یومِ شہداء کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 13 جولائی 1931 کو 22کشمیری مسلمان ریاستی پالیس کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔
13
جولائی کا واقع حکومت ریاست جموں کشمیر اور
ہری سنگھ کی انتظامیہ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے رونما ہوا جس کو انگریزوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے الگ رنگ دے کر تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔
یہ واقع جموں میں رونما ہونے والے واقعات (جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا) کی وجہ سے ہی رونما ہوا تھا۔ جموں میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور نمازپڑھنے سے روکے جانے والے واقعے نے ریاست کے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پیدا کردیا تھا جس میں عبدالقدیر نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا تھا۔عبدالقدیر نے 25 جون 1931 سرینگر کی ایک مسجد میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اکسایا کہ کشمیر میں ہندوؤں کو قتل کرنے کے علاوہ مندر بھی نذر آتش کر دیں۔ اسکے علاوہ عبدالقدیر اکثر ایسی تقریریں کر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا رہتا تھا۔ عبدالقدیر کی گرفتاری کے نتیجے میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر حملے شروع کردئیے تھے جسکی وجہ سے سری نگر مذہبی تعصب کا شکار ہو کر جنگ کا میدان بن گیا تھا۔
جب 13 جولائی 1931 کو سینٹرل جیل سرینگر میں عبدالقدیر کے مقدےکی سماعت شروع کی گئی تب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جیل کے باہر جمع ہو کر عبدالقدیر کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھی۔ کچھ مظاہرین جیل کے اندر بھی داخل ہوئے تھے جن کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا تو مظاہرین مشتعل ہو گئے اور عبدالقدیر کو رہا کروانے کے لیے جیل پر حملہ کردیا اور حملے کے باعث ایک پولیس اہلکارا بھی مارا گیا اور کئی زخمی ہوئے تھے ۔مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلانا شروع کردی تھیں جسکے نتیجے میں 22مظاہرین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور کئی زخمی بھی ہوئے۔
اس دن کو کشمیری بطورِ شہداء کشمیر مناتے ہیں اور ہر سال 13 جولائی کو 22مظاہرین کی شہادت کو یاد کرتے ہیں۔
(عبدالقدیر ایک غیر ریاستی شخص تھا جسکے متعلق علحدہ سے تفصیل کے ساتھ بات کی جائے گی
)
Comments
Post a Comment