Skip to main content

ہر مصرعہ شعر نہیں کہلاتا، شاعری اور نثر میں بنیادی فرق؟؟؟


 دا کھکھہ راجپوت ٹائمز



تحریر: راجہ شہریار طاہر

ہر مصرعہ شعر نہیں کہلاتا،یعنی ہر وہ جملہ جس میں قافیہ و ردیف ہوں وہ شعر نہیں کہلاتا۔

ہمارے ہاں اکثریتی عوام تو شاعری کو پسند کرتی ہے مگر اکثریت کو علم ہی نہیں ہوتا کہ شاعری کن اصولوں کے تحت کی جاتی ہے۔


  کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ  قافیہ و ردیف سے ہی شاعری ہے اور جن مصرعوں میں قافیے و ردیف ہوں وہ   وہ شعر کہلاتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ الفاظ کی ایک لڑی پرو کر ،الفاظ کو ترتیب دینا، آگے پیچھ کرنا اور ان کے ساتھ  قافیہ ردیف لگا دینے سے نظم یا غزل بن جاتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ محدود الفاظ میں اپنے احساس و خیالات کو قلم بند کرنا شاعری کہلاتا ہے۔

ہاں یہ حقیقت ہے کہ  شاعر محدود الفاظ میں اپنے احساس ،جذبات و خیالات قلم بند کرتا ہے مگر وہ محدود الفاظ میں بھی محدود ہو کر شاعری کے اصولوں کے مطابق باوزن مصرعے کہتا ہے جو  نثر نہیں بلکہ شعر کہلاتے ہیں۔

وزن،بحر ،تلفظ،قافیہ اور ردیف مل کر شعر بناتے ہیں اور ان میں وزن ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا ہے اور وزن ہی شاعری اور نثر میں فرق کرتا ہے۔وزن کا تعلق آواز سے ہے ۔ سادہ الفاظ میں وزن سے مراد یہ ہے کہ مصرعہ مکمل روانی میں ہو  یعنی  آہنگ میں ہو

 آہنگ یہ ہے کہ مصرعے میں  ادا ہونے والے حروف کا صوتی اتار چڑھاؤ ایک سا ہونا ہے۔ 



کچھ لوگوں کے مطابق شاعری میں وزن ،بحر و علم عروض کی کوئی حثیت نہیں ہے کیونکہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے اور علم عروض شاعری میں بدعت ہے جو  شاعری میں  خیالات،جذبات اور احساسات کو قتل کردیتا ہے۔

لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ وزن اور بحر کے بغیر احساسات،خیالات ،جذبات نثر کہلائیں گے نہ کہ شاعری۔شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے مگر سچ یہی ہے کہ علم عروض اس میں نکھار پیدا کرتا ہے مگر ایک شاعر کے لیے  اسے مکمل حاصل کرنا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ 

عروض وہ علم ہے جس کے ذریعے اشعار کے اوزان اور بحور معلوم کی جاتی ہیں اور شعر کے حسن و قبیح کا پتہ بھی لگایا جاتا ہے۔

شاعری میں دو چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ وزن اور خیال۔

اگر صرف خیال ہو اور وزن نہ ہو ،وہ شاعری نہیں بلکہ نثر کہلاتی ہے۔ 

وزن  شعری یہ ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کی تعداد و ترتیب  کا یکساں ہونا۔



اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں  جو وزن ،بحر و علم عروض سے واقف ہوتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علم عروض و وزن ہی شاعری ہے۔ اس کے متعلق "ذیشان نصر لکھتے ہیں کہ شاعری محض قافیہ پیمائی کا نام نہیں۔ عروض کی اپنی ایک مسلمہ حیثیت ہے۔شاعری میں موزونیت (عروض) سے آگے بھی بہت سی  چیزیں ضروری ہیں۔جنہیں شعریت کہا جاتا ہے۔ 

اس میں ربطگی ، پرواز تخیل بندش الفاظ  و ترکیب، نغمگی،روانی،معنویت،سلاست اور درست تشبیہات اور استعارات کا استعمال وغیرہ شامل ہیں"۔ 


اسامہ سَرسَری کہتے ہیں کہ وزن ایک آلہ ہے  شاعری اس سے بہت آگے کی چیز ہے اور وزن صرف وہی شخص سیکھ سکتا ہے جسکی طبعیت موزوں ہو"۔

۔

اسامہ سَرسَری کہتے ہیں کہ  "جس طرح یہ سمجھنا غلط ہے کہ شاعری صرف اوزان و قوافی کا نام ہے۔اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں کہ شاعری صرف احساسات کو الفاظ کا جامہ دینے کا نام ہے۔

 بلکہ آپ کا عمدہ سے عمدہ خیال جب تک وزن و آہنگ کی صورت میں سامنے نہیں آئے گا وہ نثر کلام ہی کہلائے گا،خواہ کتنا ہی شاعرانہ کیوں نہ ہو"۔

"اس بات پر سر تسلیم خم ہےکہ شعریت وزن سے بہت آگے کی چیز ہے۔لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ وزن ایک اچھے شعر کے لیے پہلا زینہ ہے"۔


ﻋﺮﻭﺽ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ

 ﻟﻐﺖ ﻣﯿﮟ عروض کے مختلف ﻣﻌﻨﯽ ہیں ۔

جیسے 

 ﺧﯿﻤﮧ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﺳﺘﻮﻥ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺧﯿﻤﮧ ﺗﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻨﮓ راستے،ﺷﻌﺮ ﮐﮯ ﻣﺼﺮﻉِ ﺍﻭﻝ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﮐﻠﻤﮧ ،ﺷﻌﺮ کے ﻭﺯﻥ ﮐﯽ ﺗﺮﺍﺯﻭ وغیرہ وغیرہ



 شاعری میں علم عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس سے شعر کو جانچا جاتا ہے۔شعر کے وزن کو دریافت کیا جاتا ہے۔


شاعری میں استعمال ہونے والیے مختلف افاعیل:

فع    (د)    2

فعل  (د ا)  2+1

فعول (ا د ا)    1+2+1

فعلن   (د د)   2+2

فَعِلن   (ا ا د)   1+1+2

فاعلن   (د ا د)  2+1+2

فعولن   (ا د د)  1+2+2

فَعِلاتن  (ا ا د د)  1+1 2+2

فاعلاتن (د ا د د)  2+1+2+2

فاعلاتُ  (د ا د ا)  2+1+2+1

مفعولُ    (د د ا) 2+2+1 

مفاعلن  (ا د ا د)  2+1+2+1

مفاعیلن (ا د د د)   1+2+2+2 

مفاعلاتن (ا د ا د د) 1+2+2+2

مفتَعِلن   (د ا ا د)  2+1+1+2

متَفاعلن  (د د ا د) 2+2+1+2

مستفعلن (د د ا د) 2+2+1+2


1/ا: ہجائے کوتاہ / ساکن یا متحرک

2/د: ہجائے بلند/ پہلا حرف متحرک دوسرا ساکن


چند الفاظ جن کو پڑھ کر آسانی سے ہجائے بلند،ہجائے کوتاہ ،افاعیل  اور وزن کے متعلق جانا جاسکتا ہے۔


فعولن:

ف عو لن: 

ا  د  د:

ہجائے کوتاہ   ہجائے بلند  ہجائے بلند


اجالا،حقیقت،جمیعت،مشقت،مصیبت،تمنا،ہمارا،بہانا،امامت،مبارک، کفالت،ذہانت،جہالت،علامت سلامت،سخاوت،نشانہ،شکایت،تلاوت وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔

یہ سب الفاظ فعولن کے وزن پر ہیں ۔




فاعلن:

فا ع لن

د  ا د

ہجائے بلند   ہجائے کوتاہ  ہجائے بلند 

لازمی،عارضی،عاجزی،شاعری،سادگی،بیکری،آدمی،نازکی،کوبکو،فالتو،پالتو،چار سو،عظمتیں،ابتدا،انتہا،زندگی،تشنگی،،رہنما وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

یہ سب الفاظ فاعلن کے وزن پر ہیں ۔




فعول:

ف عو ل

ا  د ا

ہجائے کوتاہ  ہجائے بلند ہجائے کوتاہ 

رباب،کتاب،لباب،حجاب،صباح،رباح،پچاس،اساس،لباس،معاش،عیاش،بیاض،ہلاک،کمال،جمال،ملال،تلاش،بساط،رباط،نقاط وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔

یہ سب الفاظ فعول کے وزن پر ہیں۔



فاعلات:

د ا د ا 

ہجائے بلند  ہجائے کوتاہ ہجائے بلند ہجائے کوتاہ


دردناک،طالبات،میزبان،شادمان،طالبان،بےلگام،پاکباز،جانباز،یاسمین،اعتصام، شہریار وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

یہ سب الفاظ فاعلات کے وزن پر ہیں



فاعلاتن:

د ا د د

ہجائے بلند ہجائے کوتاہ ہجائے بلند ہجائے بلند،مشورہ کر، مسکراہٹ،ٹمٹماہٹ،سنسناہٹ،زندگی ہے،شاعری ہے،ہچکچاہٹ،بلبلاہٹ،سرسراہٹ،بلبلانا،ٹمٹمانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

یہ سب الفاظ فاعلاتن کے وزن پر ہیں۔


مفاعیلن:

م فا عی لن

ا د د د

ہجائے کوتاہ ہجائے بلند ہجائے بلند ہجائے بلند


کسی لمحے،ٹھہر جاؤ ،خدا جانے،عیادت کر،مسلمانی،عبادت کر،مبارک ہو،جہالت ہے۔لگانا مت

یہ سب مفاعیلن کے وزن پر ہیں۔



فعلن:

فع لن

د د

ہجائے بلند ہجائے بلند

حاتم،ماتم،سرکش،ترکش،خاتم،جاہل،جائز،برقع،موقع،جوبن،طالب،جالب وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

یہ سب الفاظ فعلن کے وزن پر ہیں۔



فاع:

د ا

ہجائے بلند  ہجائے کوتاہ

باپ،مات،تاب،بات،لات،دھات،ساس،پاس،ٹاس،ماس وغیرہ وغیرہ۔۔۔

یہ سب الفاظ فاع کے وزن پر ہیں 


فعو:

ف عو

ا د 

ہجائے کوتاہ۔ ہجائے بلند

رسا،وبا،ستا،بتا،ابھی،عطا،خطا،صبا،رعب وغیرہ وغیرہ۔۔۔

یہ سب الفاظ فرق کے وزن پر ہیں۔


ان چند الفاظ کو پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ وزن کیا ہے، ہجائے  بلند اور ہجائے کوتاہ کیا ہیں، افاعیل  فعولن ،مفاعیلن ،فاعلاتن وغیرہ وغیرہ کیا ہیں۔


تقطیع:

تقطیع عربی زبان کے لفظ قطع سے  ہے جس کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا ،کاٹنا ،اجزا میں باٹنے کے ہیں۔ 

تقطیع علمِ عروض کا حصہ ہے جسکی رو سے اشعار کا وزن کیا جاتا ہے۔

 

مختلف الفاظ کی تقطیع کو پڑھ کر آپ الفاظ کے آواز (ساکن یا متحرک) اور وزن کے بارے میں مزید  جان پائیں گے۔


چند الفاظ کی تقطیع

(ب)

ﺷﻤﺲ = ﺷﻢ ﺱ = ﺩ ﺍ

ﻧﺼﯿﺐ = ﻥ ﺻﯽ ﺏ = ﺍ ﺩ ا

ﺷﺠﺮ= ﺵ ﺟﺮ = ﺍ ﺩ 

ﺳُﺮﻭﺭ = ﺱ ﺭﻭ ﺭ = ﺍ ﺩ ﺍ

ﻋﺰﻡ = ﻋﺰ ﻡ = ﺩ ﺍ

ﻏﻨﭽﮧ = ﻏﻦ ﭼﮧ = ﺩ ﺩ

ﺑﺴﻤﻞ = ﺑﺲ ﻣﻞ = ﺩ ﺩ

ﮐﻨﻮﻝ = ﮐ ﻭﻝ = ا ﺩ

ﻭﺻﻞ = ﻭﺹ ﻝ = ﺩ ﺍ

ﺗَﻠﻔّﻆ = ﺕ ﻟﻒ ﻓﻆ = ﺍ ﺩ ﺩ

_____

مکمل = م کم مل = ا د د

میسّر = م یس سر = ا د د

بادل = با دل = د د

طالب = طا لب = د د

جالب = جا  لب =د د

اشاش = ا شا ش = ا د د

بارش = با رش= د د 

قابض = قا بض = د د

جرائم = ج را ئم = ا د د

چٹان = چ ٹا ن = ا د ا

قمر = ا د

ظلم = د ا

کرم = د ا

سطوت = د د

حاجت = د د

شبنم =د د

آخر = د د

رحم = ا د

بیچ = د ا

غلط = ا د

باہم = د د

خانم = د د

ابتسام = د ا د ا

جان = د ا

خان = د ا

شباب = ا د ا

رات = د ا

نفرت = د د

شفقت = د د

انا = ا د

راجا = د د

چاٹ = د ا

شائستہ = د د د

نرگسیت = د ا د د

وارفتہ = د د د

سالمیت = د ا د د

متحرک = ا ا د د

ملزمان = د ا د ا

لفظ= د ا

بحر = د ا

ہجر = ا د 

سحر = ا د____

مدتوں = د ا د

حجاب= ادا

جمالی = ا د د

حقیقت= ا د د

انتقال = د ا د ا

استعمال = د د د ا

وفا = ا د

لازمی = د ا د

پاس = د ا

ٹپکنا = ا د د


ا : ہجائے کوتاہ

د : ہجائے بلند



شعر

چراغوں پر بھروسے کی خطا ہم سے نہیں  ہوئی 

چ را غو  پر   ب رو سے کی  خ طا ہم سے  ن ہی ہو ئی

 ا د  د د ا د د د ا د د  ا د د د

م فا عی لن م فا عی لن م فا عی لن م فا عی لن 

جلا کر خود جگر اپنا ،سدا کی روشنی ہم نے

ج لا کر خد  ج گر آپ نا  س دا کی رو  ش نی ہم نے 

شہریار طاہر


مانوس اور مستعمل بحور کی تعداد کئی ہے لیکن چند مشہور بحریں مندرجہ ذیل ہیں ۔

1:فعولن فعولن فعولن فعولن

2: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

3:فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

4:۔فاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

5: فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن 

6: فعلن فعلن فعلن فعلن

7: مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن

8:متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

9: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

10: مفاعیلن مفاعیلن فعولن

11: فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

12:مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

_______


وزن و روانی مصرعوں میں فرق کرتی ہے کہ یہ شاعری ہے یا نثر۔ اگر مصرعہ وزن میں ہو تو اسے شاعری مانا جائے گا اگر عمدہ سے عمدہ خیال بھی کیوں نہ ہو اگر وزن میں نہیں ہے خواہ کتنا ہی شاعرانہ کیوں نہ ہو نثر ہی کہلائے گا۔ غزل ، نظم وغیرہ کے تمام شعر ،ایک ہی بحر میں کہے جاتے ہیں۔ وزن ،روانی ،تلفظ ،قافیہ اور ردیف مل کر ایک غزل یا نظم بناتے ہیں اور ان میں وزن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور علم عروض شاعری کو پرکھنے، نکھارنے اور بہتر بنانے کا ایک آلہ ہے۔

محض قوافی پیمائی و وزن و روانی بھی شاعری نہیں ہے بلکہ  شعریت تک پہنچنے کے لیے ایک عمدہ خیال ،کیفیت اور احساس بھی ضروری ہے ۔

بہت سے نوجوان اور کئی لوگ اپنے عمدہ خیال قلم بند کررہے ہیں ،اگر وہ وزن،روانی ،بحر اور علم عروض سے ناواقف ہیں اور شاعری کررہے ہیں تو وہ صرف نثر لکھ رہے ہیں شاعری نہیں۔ تھوڑی سی محنت کر کے بہت کم وقت میں موزوں طبعیت والا شخص وزن سیکھ سکتا ہے اور علم عروض کے متعلق اہم معلومات جان سکتا ہیں جن کو سیکھنے کے بعد  شاعر بن سکتا ہے۔


تحریر:راجہ شہریار طاہر



Comments

Popular posts from this blog

کاش 22 اکتوبر 1947 کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا!

کھکھہ راجپوت ٹائمز:  !کاش 22 اکتوبر 1947 کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا: تحریر : راجہ شہریار طاہر کھکھہ آج سے 73 برس قبل ، آج کا دن یعنی 22 اکتوبر  جموں کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ہماری تاریخ  میں 22 اکتوبر 1947  سے آزادی تک   ہر دن  یوم سیاہ ہی ہے اور اس سب کا زمہ دار 22 اکتوبر 1947 کا ہی سیاہ ترین دن ہے۔ 22اکتوبر 1947 کو پاکستان سپانسر قبائلی حملہ ہی ہماری ریاست کی تقسیم، غلامی ،ریاست میں ظلم ،جبر اور ان گنت معصوموں کے قتل کا زمہ دار ہے ۔ کاش !22 اکتوبر  کا دن کیلنڈر میں نہ ہوتا، تو آج ہم تقسیم نہ ہوتے، ہماری ریاست غلام نہ ہوتی، ہمارے ہزاروں  لوگ قتل نہ ہوتے، ہمارے ہم وطن جیلوں میں نہ مرتے،ہمارے ہم وطن جیلوں میں نہ بند  ہوتے ، ہماری سینکروں مائیں بہنیں بیوہ نہ ہوتی ، ہمارے وطن کے ہزاروں  بچے یتیم نہ ہوتے ، آج ہمارے وطن میں والدین اپنے بچوں کو جوان موتیں  نہ دیکھتے ہوتے، آج مائیں اپنے بچوں ،بیویاں اپنے شوہروں اور بچے اپنے والدین سے مرحوم نہ ہوئے ہوتے، آج زندگی سسکیوں میں نہ گزرتی ہوتی، آج  ہمارے لوگ بکے ہوئے نہ ہوتے، نہ مردہ ضمیر ہوتے نہ وطن فروش ہوتے،  آج اپنے  وطن میں اپنی خواہشوں

جامعہ کشمیر: الحاق کالجز کے امتحانات بروقت ہونگے طلباء امتحانات کے لیے تیار رہیں۔

کھکھہ راجپوت ٹائمز مظفرآباد :جامعہ کشمیر  سے الحاق شدہ کالجز  کے امتحانات بروقت ہونگے طلباء امتحانات کے لیے تیار رہیں۔امتحانی طریقہ کار میں تبدیلی ممکن نہیں، طلباء مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے 14 اکتوبر سے شروع امتحان کی تیاری  کریں۔یونیورسٹی آف آزاد جموں کشمیر  کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایٹ ڈگری کامرس  اور بی کام سالانہ امتحان 23 ستمبر 2020 اور بی ایس سی ،بی اے کے امتحان  14 اکتوبر 2020 سے آزاد جموں کشمیر بھر میں یونیورسٹی آف آزاد جموں کشمیر کی طرف سے قائم کردہ امتحانی مراکز میں منعقد ہورہے ہیں۔ یونیورسٹی سے 131 الحاق کالجز میں سے ماسوائے ایک کالج کے کسی بھی کالج کے طلباء کی طرف سے  کورسز مکمل نہ ہونے کی شکایت موصول نہیں ہوئی اور جن کا کورس کالج مکمل نہیں کروا سکا تو وہ متعلقہ کالج سے رابطہ کر کے 14 اکتوبر سے پہلے کورس مکمل کریں۔یونیورسٹی کی زمہ داری امتحان لینا ہے نہ کورس مکمل کروانا اسلیے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کا کوئی کی جواز نہیں ہے 

حلقہ کھاوڑہ، یونین کونسل ٹھیریاں چنالبنگ کی عوام کے بنیادی مسائل و مطالبات

  کھکھہ راجپوت ٹائمز: یونین کونسل ٹھیریاں چنالبنگ کی عوام کے بنیادی  مسائل و مطالبات 1:#ٹھیریاں اور بنیاں کی عوام کے مطالبات 1: بنیاں تا بنی سنگھڑ تک روڈ کی پختگی 2:دلائی تا متہائی تک روڈ کی ری کنڈیشنگ  3: چڑکپورہ تا بکہ ٹھیریاں "بکہ لنک " کی ایمپروومنٹ (( 4: گورنمنٹ انٹر کالج ٹھیریاں کی عمارت 5:گورنمٹ بوائز مڈل سکول ٹھیریاں کی عمارت 6: گورنمنٹ گرلز مڈل سکول ٹھیریاں کی عمارت)) 7:صحت کے معیاری مراکز کا قیام، بنیاں میں ڈسپنسری اور ٹھیریاں میں بی ایچ یو کا قیام 8: ہیلتھ سنٹر ٹھیریاں کی عمارت و بنیادی سہولیات اور امور حیوانات سینٹر کی عمارت و بنیادی سہولیات 9:زرعی سینٹر کا قیام 10:گورنمنٹ گرلز مڈل سکول ٹھیریاں کی اپ گریڈیشن (مڈل ٹو ہائی یا ہائر سیکنڈری)  11: پرائمری سکول بنیاں کی اپگرڈیشن( پرائمری ٹو مڈل) 12:گورنمنٹ انٹر کالج ٹھیریاں کی اپگرڈیشن  13: بنیاں اور ٹھیریاں میں منظم و مربوط واٹر سکیم و ٹینکس کا قیام 14: پوسٹ آفس کی برانچ کا قیام 15: لوئر بنیاں اور مڈ ٹھیریاں میں( لنک روڈز بنائی جائیں) لنک روڈز کی کنسٹرکشن  16: بجلی کی لو وولٹیج کا حل 17: *سڑک،بجلی ،پانی ،تعلیم ،صحت