Skip to main content

تنویر احمد کون ہیں اور انھیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟؟؟؟؟

 دا کھکھہ راجپوت ٹائمز


تنویر احمد کون ہیں اور انھیں کیوں گرفتار کیا گیا؟
تحریر:راجہ شہریار طاہر 

تنویر احمد کا تعلق سہنسہ کوٹلی سے ہے اور تنویر احمد برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔تنویر احمد ایک صحافی، ریسرچر، لکھاری،سوشل ایکٹویسٹ، آزادی پسند اور محب الوطن (جموں کشمیر) ریاستی باشندے ہیں۔تنویر احمد اپنی ذات میں ایک ادارہ اور تنظیم ہیں۔تنویر احمد کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی اور ان  کا سارا خاندان برطانیہ میں آباد ہے۔ تنویر احمد نے اپنی تعلیم برطانیہ سے حاصل کی اور برطانیہ میں ایک بنک میں نوکری کرنی شروع کردی لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد بنک سے نوکری ترک کرکے بی بی سی کے ساتھ منسلک ہوگئے۔  بی بی سی کے لیے تنویر احمد افغانستان اور عراق میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔امریکہ عراق جنگ کے دوران وہ  عراق سے  بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کرتے رہے۔اس دوران تنویر احمد نے کچھ حقائق سامنے لائے جن کو بی بی سی نے نشر کرنے سے انکار کردیا جس پر تنویر احمد نے بی بی سی کو  خیرباد کہہ دیا تھا۔تنویر احمد چند سال قبل اپنے وطن جموں کشمیر لوٹ آئے اور اس کے بعد انہوں ہمیشہ کے لیے ریاست جموں کشمیر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔وطن واپسی کے بعد نہ کوہالہ کا پل پار کیا اور نہ ہی منگلا  سے پاکستان کی حدود میں گئے۔تنویر احمد وطن لوٹتے ہی اپنے  کام میں مصروف ہوگئے۔تین سال قبل اج کے ہی دن یعنی 23 اگست 2017  کو مجادلہ نیوز میں تنویر احمد کے کیے ہوئے سروے کی رپورٹ پبلش ہوئی۔  تنویر احمد نے پانچ سال سے زائد عرصے میں  پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر کی عوام کی رائے جاننے کے لیے ایک سروے کیا جس کی رپورٹ تیار کی جو مجادلہ نیوز نے آج سے تین سال قبل  پبلش کی  تھی۔ جس کے بعد مجادلہ نیوز کو سروے رپورٹ پبلش کرنے کی پاداش میں بند کیا گیا تھا ۔ تنویر احمد نے لیپہ اور نیلم سے لے کر بھمبر تک عوامی رائے جاننے اور رپورٹ تیار کرنے کے لیے سفر کیا اور دس ہزار شہریوں کی رائے پر رپورٹ مرتب کی۔ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان زیرِ انتظام جموں کشمیر کے تہتر فیصد لوگ خود مختاری کے حمایتی تھے۔گزشتہ کئی ماہ سے تنویر احمد نے عوامی اسمبلی کے قیام کا پیغام  بھمبر سے نیلم تک کے لوگوں تک پہنچایا اور ہر تحصیل ضلع سے کئی نوجوانوں کو اپنے ساتھ منسلک کیا۔ اسی دوران مجھے سہنسہ سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست حمزہ سلطانی کے ذریعے مجھے تنویر احمد صاحب کے بارے میں علم ہوا۔ حمزہ سلطانی نے بتایا کہ میں نے جموں کشمیر کے لیے اس قدر سخت محنت کرتے ہوئے کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا،تنویر صاحب بہت محنتی شخص ہیں نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن، ہر وقت کام میں مصروف ہوتے ہیں، مظفرآباد میں جما دینے والی سردی میں بھی ایک کمبل نما کپڑا اوڑھے کسی چیز کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں ۔ ان دنوں شاید نامعلوم افراد کی طرف سے ان کے گھر پر توڑ پھوڑ ہوئی تھی اور ان کے کچھ  کاغذات بھی  نامعلوم افراد لے گئے تھے، حمزہ سلطانی نے بتایا کہ تنویر صاحب کہہ رہے تھے کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں میں جاکر پتہ کروں کہ میرے گھر میں کیا نقصان ہوا ہے۔عوامی اسمبلی کا قیام ،اس کے متعلق عوام سے رائے لینے میں اور آزاد جموں کشمیر کی اسمبلی کو بااختیار بنانے کی جدوجہد میں   تنویر احمد موسم کی پروا کئیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہتے تھے۔تنور احمد اپنے وطن سے محبت کا ثبوت عملی طور پر دے رہے ہیں۔
وطن کی محبت ہی تو تھی جو تنویر احمد کو وطن واپس کھینچ لائی تھی ۔تنویر احمد نے آسائشیں چھوڑ کر ایک مشکل راہ چن کر اپنے وطن کی وحدت کی بحالی ، آزادی ، خودمختاری اور خونی لکیر کے خاتمے کی تحریک چلانا شروع کردی اور حصول مقصد کے لیے عملی طور پر مگن ہو گئے۔
 تنویر احمد کہتے ہیں کہ میری والدہ کی شادی کم عمری میں ہوئی تھی اور میری پیدائش کے بعد میری پرورش میری نانی نے ہی  کی ہے اور میں  ان کے ساتھ رہا کرتا تھا ۔  وہ کہتے ہیں جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو انہوں اپنی نانی کے رشتہ داروں کے متعلق نانی سے پوچھا،  تنویر احمد کہتے ہیں کہ جب نانی سے انہوں نے یہ سوال پوچھا تو نانی رونے لگی اور پھر انہوں   نے اپنی روداد سنائی تو معلوم ہوا کے نانی کا تعلق پڑھے لکھے ہندو گھرانے سے تھا ۔نانی نے بتایا کہ   1947 سے قبل  قبل  جموں کشمیر متحد ملک  تھا۔ نانی نے بتایا جب 1947 میں غدر شروع ہوا تو ہر طرف افراد تفری مچ گئی اور انکے کچھ رشتہ دار مارے گئے اور کچھ جانیں بچا کر جموں کی طرف بھاگ گئے تھے۔نانی نے بتایا تب وہ چودہ سال کی تھیں جب انھیں دیگر ہندوؤں لڑکیوں کے ساتھ مسلمانوں نے پکڑ لیا تھا ۔نانی کہتی ہیں میں جس شخص کے حصے میں آئی تھی وہ تمہارے نانا تھے۔نانی نے بتایا جموں کشمیر کے تقسیم ہو جانے سے آر پار ایک لکیر قائم ہو گئی اور اس لکیر کے قائم ہونے کے بعد وہ کھبی  اپنے رشتہ داروں کو نہیں دیکھ سکی۔ تنویر احمد نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنی نانی کو  ان کے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے سے ملاقات کروانے  کے لیے انھیں انڈین مقبوضہ جموں کشمیر میں لے گئے تھے ۔تنویر احمد کہتے ہیں نانی کے بہن بھائی ،رشتہ دار  ہندو تھے اور ہم مسلمان لیکن جذبات اور درد ایک جیسے تھے تھے لیکن ایک بار پھر متحد ہونا چاہتے تھے اور وہ خونی لکیر کا خاتمہ چاہتے تھے۔تنویر احمد کہتے ہیں تب سے انھوں نے اپنی زندگی کے تمام تر  پروگرام،  مستقبل کے منصوبے اور آسائشیں ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس دن سے منصوبہ بنایا  اور عہد کیا کہ وہ خون لکیر کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گئے اور خونی لیکر کو ختم کریں گئے۔تنویر احمد نے اپنی زندگی کے مستقبل کے تمام منصوبے ، آسائشیں اور خواہشات ترک کر کے خونی لیکر کے خاتمے کا مشن اپنا لیا اور اپنے مشن کی تکمیل اور مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ڈڈیال ضلع میرپور میں  کچھ عرصہ پہلے  مقبول بٹ کے نام سے منسوب ایک چوک تعمیر کیا گیا۔ جس کا نام مقبول بٹ سکوائر رکھا گیا۔چودہ اگست 2020 کو  ڈڈیال انتظامیہ نے مقبول بٹ سے منسوب سکوائر پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔پاکستانی پرچم لہرانے پر تنویر احمد نے یہ موقف اپنایا کہ مقبول بٹ نے ساری زندگی پاکستان اور ہندوستان کے لگائے گئے الزامات  اور بدترین سزاؤں کا سامنا کیا اور ہمیشہ جموں کشمیر کی  آزادی اور خودمختاری کی حمایت کی ہے اور دونوں ممالک کی طرف سے ان کے ساتھ بدتر سلوک کیا گیا اور ان کے نام سے منسوب چوک پر پاکستانی پرچم لہرانا مقبول بٹ کی توعین ہے اور ان کے نظریہ کے پیروکار کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔   تنویر احمد نے یہ موقف اپناتے ہوئے بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔ تنویر احمد نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جب تک وہ مقبول بٹ شہید سکوئر سے پاکستانی پرچم نہیں اتارتے تب تک وہ بھوک ہڑتال جاری رکھیں گئے۔  50 گھنٹوں سے زائد وقت گزرنے کے بعد  بھوک ہڑتال کیمپ کا ڈڈیال انتظامیہ نے رخ کیا ۔ ڈڈیال انتظامیہ نے رات کو پاکستانی پرچم  اتارنے کا وعدہ کیا اور بھوک ہڑتال ختم کرنے کا کہا ، ڈڈیال انتظامیہ کی یقین دہانی پر تنویر احمد نے  بھوک ہڑتال موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔اسکے بعد  تین دن کا انتظار کیا گیا لیکن انتظامیہ نے پرچم نہیں اتارا اور جس پر مقبول بٹ سکوائر سے تنویر احمد نے نہایت احترام سے پاکستان کا پرچم اتار دیا جس پر انتظامیہ نے تنویر احمد پر تشدد کرتے ہوئے   اور گھسٹتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ جس پر جموں کشمیر کے آزادی پسندوں کی بڑی تعداد  اگھٹی ہو گئی ۔تمام آزادی پسندوں کی طرف سے بھرپور مذمت کی گئی ہیں تنویر احمد کو رہا کروانے کے لیے آواز بلند کی اور ایک بڑی احتجاجی کیمپ کا انعقاد کیا اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ تنویر احمد کو فلفور رہا  کریں بصورت دیگر پاکستان زیرِ انتظام جموں کشمیر بھرمیں بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔


Comments

Popular posts from this blog

کھاوڑہ کو "کھاوڑہ" کیوں کہا جاتا ہے اور کھکھواڑی زبان کہاں بولی جاتی ہے

 کھکھہ راجپوت ٹائمز: کھاوڑہ لفظ کھکھہ واڑہ وچآ نکلیا جس تے معنی کھکھہ ذی جاگیرا ذے،  کھکھواڑہ سیاں لفظ صوتی تغیر اور وقتا نال کھاوڑہ ہوئیا۔ کھکھواڑہ وچ کھکھیاں ذی ایک بہت بڑی تعداد آباد ای اور جہڑی زبان کھکھے بولدے او کھکھواڑی کہلانزی جس تا لہجہ ہندکو  ذے پہاڑی کولا مختلف آہ۔ اکثر لوک اسا"تیا میا" الی زبان سیاں جانڑدے اور اسا "تیا میا" الی زبان اختے۔  ائیکلاں لوک اپنڑے بچیاں اپنڑی مادی زبان نہے بولنڑ دینزے اور کئی لوک ایسے وی تھے جہڑے اپنڑی مادی زبان  بولے وچ توہین اور شرمندگی محسوس کردے ۔  آس لوک اپنڑے بچیاں نال کھکھواڑی ذی جائی اردو بولدیاں اور انھاں  اپنڑی زبان نہے بولنڑ دینزے اں۔ اے غل بہت ہی غلط ای، کیاں کہ اس تی ایک وجہ اے ای کہ اس نال آس اپنڑی زبانا دن بدن ختم کررہیاں تہ دویا اے آہ کہ جہڑی قوم اپنڑی مادری زبان بولے وچ جھجک شرمندگی محسوس کرا او دنیا ذی غلام ترین اور بیوقوف ترین قوم کہلانزی ۔ اردو وی آساں ذی اپنڑی زبان ای ،اساں ذی شناخت اور پہچانڑ ای لیکنڑ مادی زبان اردو کولا آساں ذی پہلی پہچانڑ ای ،اردو نصابا ذا حصہ ای اور آس سیکھی وی کہندیاں لیک...

13 جولائی 1931: یومِ شہداء کشمیر

کھکھہ راجپوت ٹائمز 13 جولائی ،1931 ہر سال 13 جولائی یومِ شہداء کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 13 جولائی 1931 کو 22کشمیری مسلمان ریاستی پالیس کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ 13 جولائی کا واقع حکومت ریاست جموں کشمیر اور ہری سنگھ کی انتظامیہ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے رونما ہوا جس کو انگریزوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے الگ رنگ دے کر تاریخ کے ساتھ  بہت بڑی زیادتی کی ہے۔  یہ واقع جموں میں رونما ہونے والے واقعات (جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا) کی وجہ سے ہی  رونما ہوا تھا۔ جموں میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور نمازپڑھنے سے روکے جانے والے واقعے نے ریاست کے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پیدا کردیا تھا جس میں عبدالقدیر نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا تھا۔عبدالقدیر نے 25 جون 1931 سرینگر کی ایک مسجد میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف  تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اکسایا کہ کشمیر میں ہندوؤں کو قتل کرنے کے  علاوہ مندر بھی نذر آتش کر دیں۔ اسکے علاوہ عبدالقدیر اکثر ایسی تقریریں کر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا رہتا تھا۔  عبدالقدیر کی گرفتاری کے نتیجے میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر...

ہر مصرعہ شعر نہیں کہلاتا، شاعری اور نثر میں بنیادی فرق؟؟؟

 دا کھکھہ راجپوت ٹائمز تحریر: راجہ شہریار طاہر ہر مصرعہ شعر نہیں کہلاتا،یعنی ہر وہ جملہ جس میں قافیہ و ردیف ہوں وہ شعر نہیں کہلاتا۔ ہمارے ہاں اکثریتی عوام تو شاعری کو پسند کرتی ہے مگر اکثریت کو علم ہی نہیں ہوتا کہ شاعری کن اصولوں کے تحت کی جاتی ہے۔   کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ  قافیہ و ردیف سے ہی شاعری ہے اور جن مصرعوں میں قافیے و ردیف ہوں وہ   وہ شعر کہلاتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ الفاظ کی ایک لڑی پرو کر ،الفاظ کو ترتیب دینا، آگے پیچھ کرنا اور ان کے ساتھ  قافیہ ردیف لگا دینے سے نظم یا غزل بن جاتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ محدود الفاظ میں اپنے احساس و خیالات کو قلم بند کرنا شاعری کہلاتا ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ  شاعر محدود الفاظ میں اپنے احساس ،جذبات و خیالات قلم بند کرتا ہے مگر وہ محدود الفاظ میں بھی محدود ہو کر شاعری کے اصولوں کے مطابق باوزن مصرعے کہتا ہے جو  نثر نہیں بلکہ شعر کہلاتے ہیں۔ وزن،بحر ،تلفظ،قافیہ اور ردیف مل کر شعر بناتے ہیں اور ان میں وزن ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا ہے اور وزن ہی شاعری اور نثر میں فرق کرتا ہے۔وزن کا تعلق آواز سے ہے ...